Providing Everything which you Need

Kashmeer Hmara Hai



پاکستان سے محبت اور بھارتی تسلط سے آزادی کی تحریک میں جہاں کشمیری نوجوان، بچے، عورتیں لازوال قربانیاں دے رہے ہیں وہیں کشمیری تاجر برادری نے بھی تاریخ رقم کردی ہے. کشمیر میں دو ماہ سے جاری کرفیو کے باعث نہ گھروں میں کھانا ہے نا ہسپتالوں میں ادویات. وادی کی معیشت کا انحصار دو چیزوں پر ہوتا ہے، سیب اور سیاحت. دونوں طرف کرفیو اور موجودہ تحریک کے باعث کشمیریوں نے فیصلہ کیا ہے کے جتنا مرضی نقصان ہوجائے ہم آزادی کی تحریک کے ساتھ کھڑے رہیں گے. کشمیری چیمبر آف کامرس کے سربراہ مشتاق احمد وانی کا کہنا ہے کہ "ہمارے لیے سب سے قیمتی اشیاء ہمارے وہ بیٹے تھے جو بھارت نے ہم سے چھین لیے، اس کے سامنے کسی نقصان کی کوئی اہمیت نہیں." دو ماہ میں یومیہ 130 کروڑ کا نقصان اٹھانے، اور دو ماہ میں 1000 کروڑ کے نقصان کے باوجود کشمیری تاجران آزادی کے نعرے لگا رہے ہیں. پچھلے سال سیب کی فصل کے سیزن میں 200 ٹرک یومیہ کشمیر سے بھارت جاتے تھے لیکن اس سال سیب کے باغات ویران ہیں اور  پکے ہوئے پھل خراب ہورہے ہیں. اندازہ کے مطابق پچھلے سال مکمل فصل 19.43 لاکھ میٹرک ٹن سے زیادہ تھی اور 7000 کروڑ مالیت کا فائدہ کشمیر کی GDP کو ہوا جبکہ اس سال 8000 کروڑ کا نقصان یقینی ہوچکا ہے. سیاحت کے نہ ہونے کی وجہ سے روزانہ 5 کروڑ کا نقصان اس کے علاوہ ہے.  کشمیری تاجروں اور مینوفیکچر فیڈریشن کے سربراہ محمد یاسین خان کا کہنا ہے کہ ہم آزادی کی خاطر اپنا کاروبار قربان کرنے کے لیے تیار ہیں تاکہ ایک مرتبہ اس مسئلے کا حل نکل آئے. مگر سوال یہ ہے کہ....
ایک طرف کشمیری قربانیوں کی داستانیں رقم کر رہے ہیں اور اپنی تجارت کو بھی قربان کر چکے ہیں لیکن جن کی خاطر وہ یہ سب کچھ کر رہے ہیں ان کا کیا کردار ہے؟

پاکستان کی بھارت سے آلو پیاز کی تجارت؟ اربوں روپے بھارت منتقل؟ شوگر ملوں میں بھارتی جاسوس؟ اور بھارتی جارحیت کے خلاف فقط کمزور بیانات؟ بھارت کے وزراء پاکستان کو جھنم کہیں اور دھماکوں کے زریعہ جہنم بنانے کی کوشش کریں، بلوچستان میں بنگلادیش طرز کی سازشیں کریں، دنیا میں پاکستان کو تنہا کرنے کی منصوبہ بندی کریں اور دھشت گردی کا مرکز کہیں لیکن اسلام آباد میں قبرستان کی سی خاموشی؟ 6 ستمبر کی اپنی تقریر میں امیر جماعت الدعوہ پروفیسر حافظ محمد سعید صاحب نے یہ سوال کیا کے ہم کشمیریوں کا مزید کتنا امتحان لیں گے؟ وہ 2 ماہ سے ہاتھوں میں پاکستانی پرچم تھامے اپنے سینوں پر گولیاں کھا رہے ہیں اور اسی پرچم میں دفن ہورہے ہیں..  اپنی آنکھوں کو قربان کر رہے ہیں، عصمتیں لٹا رہے ہیں لیکن بھارت کے ساتھ رہنے پر آمادہ نہیں. کشمیری یہ سب کچھ صرف اپنی آزادی کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے دفاع کے لئے کر رہے ہیں. کیا مودی کے بلوچستان، گلگت، آزاد کشمیر پر بیانات کے بعد بھی ہمیں شک ہے؟ کیا امریکہ اور بھارت کا اقتصادی راہداری کے خلاف معاہدہ اور پاکستان کو ناکام کرنے کی سازش بھی ہمیں سمجھ نہیں آتی؟ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی واضح تقریر کے بعد بھی آپ کو کوئی شک ہے کے پاکستان کس قسم کی خوفناک غیر روایتی جنگ میں گھرا ہوا ہے؟ لیکن سلام ہے ان کشمیریوں کو جو پاکستان کی شہ رگ ہیں اور اس کا دفاع بھی فقط پتھروں سے، اپنے نازک ہاتھوں سے، اپنے نوجوان سینوں سے کر رہے ہیں..
ایک پاکستانی ہونے کے ناطے سے مجھے اور آپ کو بھی سوچنا ہوگا کہ کیا ہمیں کشمیر کے لئے چند روپے دینے، قربانی کی کھال دینے کو بہت بڑا بوجھ سمجھنا چاہئے یا پھر ان مظلوموں کے لیے عملی طور پر انصار کا کردار ادا کرنا چاہئے؟
مسئلہ کشمیر اس موڑ پر پہنچ چکا ہے جہاں
 تاریخ واضح طور پر لکھے گی کے جب کشمیریوں نے اپنا سب کچھ قربان کردیا تھا تو اہلیان پاکستان میں سے کون ان کے ساتھ کھڑا تھا اور کون ان کی پیٹھ میں خنجر گھونپ رہا تھا.. آج کشمیریوں کا نعرہ ہے، آزادی کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ..  اور اس نعرہ نے دنیا کے باطل نظاموں اور فرعونوں کے آگے آج تک شکست نہیں کھائی، فیصلہ ہم نے کرنا ہے کے کشمیریوں کے مددگار بن کر اس آزادی کی منزل کو حاصل کرنا ہے یا کشمیریوں کا مزید کوئی امتحان ابھی باقی ہے.
Labels:

Post a Comment

Thanks For Comment

Contact Form

Name

Email *

Message *

©2016. Powered by Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget